تہران، 14 دسمبر (يو اين آئى)ايران نے پابندى سے بچنے کى کوشاں کمپنيوں اور افراد کو بليک لسٹ ميں ڈالنے کے امريکہ کے فيصلے پر سخت برہمى کا اظہار کيا ہے اور اسے گذشتہ دنوں جينيوا ميں ہوئے ايٹمى معاہدے کى روح کے منافى قرار ديا ہے۔
ايران کے نمائندے چار دن سے ويانا ميں جارى مذاکرا ت کو چھوڑکر واپس اپنے ملک لوٹ رہے ہيں۔ ايران کا موقف ہے کہ نئى پابندياں اس کےلئے مذاکرات کو بيچ ميں چھوڑنے کا سبب بن رہى ہيں۔ امريکى حکومت کا يہ فيصلہ غور و فکر کے بغير کيا گيا ہے اور اس کے دورس نتائج ہوں گے۔
ايران کے اعلى ايٹمى مذاکرات عباس عراقچى نے کہا ہے کہ جنيوا ميں کئے گئے عبورى معاہدے کے وقت چھ ممالک نے تہران کى ايٹمى
سرگرميوں کو کنٹرول کرنے کے بدلے کوئى نئى پابندى نہ لگانے کى يقين دہانى کى تھى ليکن اب ٹھيک اس کے خلاف قدم اٹھاکر اس معاہدے کى اصل روح کے منافى کام کيا جارہا ہے۔
انہوں نے مزيد کہا کہ ان کى ٹيم ويانا سے تہران لوٹ رہى ہے اور انکا ملک امريکہ کے اس بدلے ہوئے رخ کا معقول جواب دے گا۔ ايران کے فرانس ميں سفير نے کہا کہ امريکہ کے نئے رويے سے ايران کے اندر مغرب سے مذاکرات کے مخالفين کو ہى تقويت ملے گى۔
ايران کے اس شديد ردعمل کے باوجود امريکى وزير خارجہ جان کيرى اور يورپى يونين کى خارجہ پاليسى کى سربراہ کيتھرين ايشٹن نے ايران کے ساتھ مذاکرات کى ناکامى کے امکان کو خارج کرتے ہوئے اس کے جلد شروع ہونے کى اميد ظاہر کى ہے۔